باغِ عدن کو سنوارنا اور سرسبز و شاداب رکھنا (پیدائش 15:2)۔
پورے دل، جان، عقل اور طاقت سے خدا سے محبت اور کامل طور پر اُس کی اطاعت کرنا (پیدائش 16:2-17)۔
تمام جانوروں کے نام رکھنے کی ذمہ داری (پیدائش 19:2-20)۔
زمِین کو معمُور و محکُوم کرنا اوراس پر خدا کی بادشاہی (کلیسیا) قائم کرنا (پیدائش 28:1)۔
مگر آدم گناہ کے سبب سے خدا سے کامل محبت اور اطاعت کرنے میں ناکام رہا اور اُس کی نافرمانی نے نہ صرف اُس کی اپنی ہلاکت کو جنم دیا بلکہ پوری نسلِ انسانی کو بھی گناہ کے اندھیروں میں گرا دیا۔ جیسا کہ پولُس رسول کہتا ہے کہ: ’’پس جیسے ایک آدمی کے وسیلے سے گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سبب موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گناہ کیا‘‘ (رومیوں 12:5)۔ آدم کےگناہ میں گرنے کی جڑ اُس کا ابلیس کے بہکاوے میں اکر خدا سے محبت میں بگاڑ تھی: گناہ کے سبب سے آدم کے دل میں خدا سے محبت نفرت میں اور گناہ سے نفرت محبت میں بدل گئی۔ اس کے نتیجے میں انسان گناہ اور اُس کی خواہشات کا غلام بن گیا (رومیوں 17:6-18)۔ لیکن جب انسان گناہ میں ڈوبا ہوا تھا تو، خدا نے اپنی خودمختار مرضی سے مداخلت کی تاکہ اپنے لوگوں کو بچائے۔ اپنے فضل میں اُس نے آدم اور حوا پر موت کی سزا سنائی، مگر یہ سزا بھی دراصل ایک رحمت تھی، کیونکہ اگر وہ ہمیشہ گناہ کی حالت میں زندہ رہتے تو ابدی مصیبت اور ہمیشہ خدا سے علیحدگی میں رہتے۔ خدا نے اپنی رحمت میں فضل کے عہد کے ذریعے انجیلِ مسیح کو ظاہر کیا۔ پیدائش 21:3 میں خدا نے آدم اور حوا کے لیے جانوروں کی کھال سے لباس بنایا، جو مسیح کے خون کے وسیلے گناہوں کے ڈھانپنے کی علامت تھی۔ ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ ’’عورت کی نسل‘‘ (یسوع مسیح) سانپ (ابلیس) کے سر کو کچلے گا (پیدائش 15:3)۔ اس طرح ایک نجات دہندہ کا اعلان ہوا جو گناہ کی لعنت کو مٹا دے گا اور شیطان سے بادشاہی چھین لے گا۔
آخری آدم (یسوع) نے وہ سب کچھ پورا کیا جو پہلا آدم کرنے میں ناکام رہا۔ یسوع نے خدا سے کامل محبت کی، کبھی گناہ نہ کیا اور ہمیشہ اُس کی اطاعت کی (متی 37:22-38؛ 1 پطرس 22:2)۔ اُس نے زمین پر خدا کی بادشاہی قائم کی، اپنی کلیسیا کو تعمیر کیا اور وعدہ کیا کہ جہنم کے دروازے اس پر غالب نہ آئیں گے (متی 18:16)۔ مسیح کے وسیلے سے وہ سب جنہیں خدا نے اپنے فضل سے چُنا ہے، ایمان لاتے ہیں اور اُس کے لوگ بنتے ہیں (اعمال 48:13)۔ بائبل میں بار بار خدا کا یہ وعدہ جھلکتا ہے کہ: ’’میں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میرے لوگ ہوں گے‘‘ (یرمیاہ 33:31؛ مکاشفہ 7:21)۔ یسوع کی زندگی، موت اور قیامت میں فضل کا عہد اپنی کامل تکمیل کو پہنچا اور خدا کی ابدی بادشاہی کا قیام یقینی ہوا۔
جیسا کہ جان کیلون نے کہاکہ: ’’فضل کا عہد وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے خدا گنہگاروں کو اپنے ساتھ ملاتا ہے۔ یہ انسانی نیکی پر نہیں بلکہ الٰہی رحمت پر مبنی ہے۔ انجیل کوئی نئی شریعت نہیں بلکہ مسیح کے وسیلے سے زندگی کا وعدہ ہے۔‘‘
ہرمن باونک کے مطابق: ’’فضل کا عہد، جو مسیح میں قائم کیا گیا، نجات کی پوری تاریخ کی بنیاد ہے۔ اس کے ذریعے خدا وہ سب کچھ بخشتا ہے جو انسان کما نہیں سکتا:یعنی راستبازی، معافی، اور ابدی زندگی۔‘‘